روزه کا کفاره یا روزہ توڑنے کا کفارہ مندرجہ ذیل تین میں سے ایک چیز ہے۔
غلام کو ازاد کرنا
لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا
ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا
کفارے کی مقدار اور اس کا طریقہ
ظاہراً موجودہ زمانے میں غلام ہی نہیں کہ ان کو ازاد کیا جائے لہذا مکلف کو اختیار ہے کہ وہ روزہ رکھے یا کھانا کھلائے۔
کفارے کی مقدار میں کوئی فرق نہیں ہے کہ حلال چیز سے روزہ توڑا ہو یا حرام شے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر حرام چیز سے روزہ توڑا ہو تو تینوں کفارے ادا کرے۔
اگر تینوں کفارے دینے پر قادر نہ ہو تو واجب ہے کہ حسب استطاعت فقیر کو صدقہ دے اور احتیاط یہ ہے کہ استغفار بھی کرے، لیکن اگر صدقہ بھی نہ دے سکتا ہو تو دل و زبان سے” استغفراللہ” کہنا ہی کافی ہے۔
اگر روزہ رکھنے کھانا کھلانے اور صدقہ دینے پر قادر نہ ہونے کی بنا پر صرف استغفار کرنا ذمہ داری قرار پائے لیکن بعد میں روزہ رکھنے یا کھانا کھلانے پر قادر ہو جائے ،تو اسی ایسی صورت میں کفارہ واجب نہیں ہوگا اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی ادا کرے۔
جس کو لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہو اس پر واجب ہے کہ ایک مہینہ پورا اور دوسرے مہینے میں ایک دن لگاتار روزہ رکھے اور اس کے بعد دوسرے مہینے کے دنوں میں اگر بطور متفرق روزے رکھتا ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
جو شخص 60 مسکینوں کو گزشتہ مسئلے میں بیان شدہ کیفیت کے مطابق کھانا دینا چاہے، اگر اس کو م مذکورہ تعداد میں مسکین مل جائیں تو اس پر واجب ہے کہ 60 میں سے ہر ایک کو ایک مقرر شدہ مقدار میں کھانا دے ،ایک شخص کو دو حصے یا کم از کم زیادہ دینا کافی نہیں ہوگا البتہ ایک فقیر کو اتنا دے سکتا ہے جتنے اس کے گھر کے افراد ہیں تاکہ وہ ان کو کھانا کھلائے۔ فقیر کے مرد عورت چھوٹا اور بڑا ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
روزه کا کفاره کے احکام
جس شخص پر کفارہ واجب ہو جائے اس پر اسے فورا ادا کرنا واجب نہیں لیکن اتنی تاخیر کرنا بھی جائز نہیں کہ واجب کی ادائیگی میں سستی کرنے کا مرتکب قرار پائے۔
اگر کئی سال تک کفارہ نہ دے تو مزید کوئی چیز اس پر واجب نہیں ہوتی۔
روزے کے کفارے میں قضا اور کفارے کے درمیان ترتیب واجب نہیں ہے۔

رمضان کے قضا روزے کو توڑنے کا کفارہ
کفارہ کا وجوب اور اس کے موارد
ماہ رمضان کے قضا روزے کو زوال کے بعد توڑنا جائز نہیں ہے، پس! !اگر امداً توڑ دے تو کفارہ واجب ہو جائے گا۔
ماہ رمضان کے قضا روزے کو زوال سے پہلے توڑنا جائز ہے بشرط یہ اس کا وقت تنگ نہ ہو پس! !اگر وقت تنگ ہو مثلاً کسی کے ذمہ پانچ روزوں کی قضا ہو اور اگلا رمضان شروع ہونے میں صرف پانچ دن باقی رہے گئے ہوں تو بنا بر احتیاط ظہر سے پہلے اس کے لیے روزہ توڑنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر توڑ دے تو اس پر کفارہ نہیں ہے
اگر کسی شخص کو میت کی طرف سے ماہ مبارک کے قضا روزے رکھنے کے لیے اجیر بنایا جائے اور وہ زوال کے بعد روزہ توڑ دے تو اس پر کفارہ واجب نہیں ہے۔
کفارے کی مقدار
ماہ رمضان کے قضا روزہ توڑنے کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے اور اگر اس پر قادر نہ ہو تو تین روزے رکھے۔

تاخیر کا کفارہ
کفارہ کا وجود اور اس کا محل
اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں کسی غزر کی بنا پر روزہ توڑ دے ،لیکن سستی کی بنا پر اور بغیر کسی غزر کے قضا میں تاخیر کرے، تو واجب ہے کہ قضا رکھے اور ہر دن کے بدلے میں کفارہ ادا کرے، لیکن اگر ماہ رمضان کے قضا روزوں کو ائندہ رمضان تک تاخیر میں ڈالے اور اسی غزر کے جاری رہنے کی بنا پر ہو جو روزہ رکھنے سے مانے تھا ،مثلاً مستقل سفر میں ہو تو کافی ہے کہ ان ایام کی قضا بجا لائے جبکہ تاخیر کا کفارہ واجب نہیں ہوگا اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ قضا و کفارہ دونوں ادا کرے۔
ماہ رمضان کے قضا روزوں کو ائندہ سال تک موخر کرنے کا کفارہ ساقط نہیں ہوتا چاہے اس کے وجوب کا علم نہ رکھتا ہو، بنا برایں جو شخص ائندہ رمضان تک قضا میں تاخیر کرے، اس بات سے جہالت کی بنا پر کہ اگلا رمضان انے سے پہلے قضا روزے رکھنا واجب ہے، تو اس پر واجب ہے کہ قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے میں کفارہ ادا کرے۔
ماہ رمضان کے روزوں میں تاخیر کرنے کا کفارہ صرف ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے چاہے کئی سال تک قضا میں تاخیر کرے، برسوں کی تعداد کے برابر اس پر تکرار واجب نہیں ہوتا بنا برایں اگر ماہ مبارک کے قضا روزے رکھنے میں چند سال تاخیر کرے تو اس پر قضا واجب ہوگی اور ہر دن کے بدلے میں جس میں تاخیر کی تھی ایک کفارہ واجب ہوگا۔
کفارے کی مقدار
تاخیر کا کفارہ ہے ہر دن کے بدلے مسکین کو ایک مدت تو عام دینا۔
جس شخص پر ہر دن کے بدلے ایک مد طعام واجب ہو وہ چند دنوں کے چند کفارے ایک فقیر کو دے سکتا ہے۔